سیما حیدر: ’اگر وہ پاکستانی ہے بھی تو اس میں پاکستانی ہندوؤں کا کیا قصور ہے‘
’ہم تو پہلے ہی کسی تنازعے سے بچتے ہیں، اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، ڈاکوؤں کی دھمکیوں کے بعد یقیناً خدشات تو ہوں گے کیونکہ ہماری کمیونٹی کے لوگ اغوا ہو چکے ہیں اور اس ضلعے میں ہندو کمیونٹی پر حملے بھی ہو چکے ہیں۔‘
رمیش لال (فرضی نام) اس وعدے پر بات کرنے کے لیے راضی ہوئے کہ ہم ان کی شناخت ظاہر نہیں کریں گے، نوجوان رمیش کا تعلق گھوٹکی ضلع سے ہے اور وہ یونیورسٹی میں طالب علم ہیں۔
پاکستان کے صوبے سندھ کے شمالی اضلاع میں پولیس نے ہندو کمیونٹی کی عبادت گاہوں اور بستیوں کی سکیورٹی بڑھا دی ہے، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کی جانب سے سیما رند کی واپسی کے لیے دی گئی دھمکیوں کے بعد یہ حفاظتی انتظام کیے گئے ہیں۔
ڈاکوں کی مندروں پر حملے کی دھمکیاں
شمالی سندھ کے ضلعے گھوٹکی، کشمور، کندھ کوٹ اور جیکب آباد میں ڈاکوں کے کئی گروہ سرگرم ہیں جنھوں نے دریائے سندھ کے ساتھ کچے کے علاقے میں پناہ لے رکھی ہے۔ پولیس گذشتہ کئی دہائیوں سے ان کے خلاف آپریشن کر رہی ہے لیکن تاحال اسے کامیابی نہیں مل ہے۔
سیما اور غلام حیدر دونوں کا تعلق بلوچ قبیلے سے ہے، سوشل میڈیا پر سندھ کے ڈاکوں کے مختلف گروہوں نے انڈین حکومت کو دھمکی دی تھی کہ سیما کو اس کے ملک واپس بھیجا جائے۔
رانو شر نامی ڈاکو نے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو، پارلیمینٹرینز اور حکومت سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ ’سیما رند اور بچوں کو واپس وطن لایا جائے بصورت دیگر پاکستان میں رہنے والے جو بھی ہندو ہیں وہ اپنی حفاظت کے خود ذمہ دار ہیں۔ اگر لڑکی واپس نہ آئی تو رہڑکی میں جو مندر ہے اس پر بم مار دیں گے۔‘
یاد رہے کہ رانو شر پولیس کو مطلوب ڈاکو ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ نسوانی آواز میں لوگوں کو ورغلا کر کچے میں بلاتے ہیں اور وہاں سے انھیں اغوا کرتے ہیں۔
ایک دوسری ویڈیو میں پانچ مسلح نقاب پوش ڈاکو ہندو کمیونٹی کو دھمکی دے رہے ہیں کہ ’لڑکی (سیما حیدر) واپس نہیں کی تو جیکب آباد، رتو دیرو، کشمور، جہاں جہاں ہندو رہتے ہیں انھیں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔‘
ڈاکو اس ویڈیو میں انتہائی نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے بچے اور لڑکی واپس کرو، ہم بلوچ قوم ہیں اور ڈرتے نہیں ہیں۔ ویڈیو کے آخر میں وہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔
ایک تیسری ویڈیو میں ڈاکو رانو شر کی پیروی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کندھ کوٹ اور آس پاس کے علاقے میں حملے کریں گے ساتھ میں وہ سامنے موجود بم بھی دکھاتے ہیں۔
’اگر وہ پاکستانی ہے بھی اس میں پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کا کیا قصور
ہے‘
اقلیتی امور کے صوبائی وزیر گیان چند ایسرانی کا کہنا ہے کہ ان کی اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ سے بات ہوئی ہے اور وہ آئی جی سندھ سے بھی روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ آئی جی سندھ کے مطابق انھوں نے مندروں اور ہندوؤں کے محلوں میں سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
سیما کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ پہلے تو کوئی قبیلہ انھیں اپنا ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ اور اگر وہ پاکستانی ہے بھی اس میں پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کا کیا قصور ہے؟ پاکستانی ہندو اگر انڈیا جانا چاہیں تو انھیں دو دو سال ویزا نہیں ملتا، ویزا مل بھی جائے تو انڈیا میں سکیورٹی کے نام پر پاکستانی ہندوؤں کو وہاں بہت تنگ کیا جاتا ہے، جگہ جگہ انٹری کروائی جاتی ہے۔ ہوٹل میں ٹھہریں تو ات کو سکیورٹی ایجنسی والے پوچھ گچھ کرنے آجاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کوئی پاکستانی لڑکی انڈیا کے کسی ہندو سے شادی کرتی ہے، اس میں میرے خیال میں انڈین حکومت کی کوئی پلاننگ ہے۔ ان کے پاکستان میں فساد کروانے کے کوئی ارادے ہیں، میرے خیال میں یہ سب کچھ انڈیا کروا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ہندو نے کچھ کیا ہے تو اس میں پاکستان کے ہندوؤں کا کیا قصور ہے، پاکستان کے ہندو محبِ وطن پاکستانی ہیں۔ صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں، ان کی ہیدائش یہاں کی ہے، ان کے کاروبار یہاں ہیں۔‘
ہندو کمیونٹی کی سرگرمیاں محدود
مذہبی جماعتیں پہلے تو اس معاملے پر خاموش تھیں لیکن اب انھوں نے بھی اس پر بیانات دیے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے رہنما علامہ راشد محمود سومرو کا کہنا ہے کہ واقعے کی فی الفور تحقیقات ہونی چاہیے کہ سیما جکھرانی چار بچوں سمیت کس طرح پاکستان سے براستہ دبئی، نیپال سے انڈیا پہنچی ہیں اور انھیں ان ممالک کے ویزے کس کے توسط سے ملے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ایک مسلمان عورت کا فوری طور پر انڈیا میں پہنچ کر ہندو مذہب قبول کرنا، ساڑھی پہننا، فرفر ہندی زبان بولنا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔‘
گھوٹکی ضلع کا نام جبری مذہب کی حوالے سے بھی میڈیا میں آتا رہتا ہے، یہاں کی مقامی شخصیت میاں مٹھو پر الزام ہے کہ وہ اس رجحان کو فروع دے رہے ہیں۔
میاں مٹھو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’سندھ میں رہنے والے ہندو سیما رند کی واپسی کے لیے کوشش کریں، ایسا نہ ہو کہ کوئی شرارت کرکے ان کے مندروں پر حملے کر دے۔‘
میونسپل کمیٹی گھوٹکی کے وائس چیئرمین اور سندھ ہیومن رائٹس ک بورڈ کے رکن سکھدیو آسر داس ہیمنانی کا کہنا ہے کہ ان دھمکیوں کی وجہ سے ہندو کمیونٹی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور انھوں نے احتیاطی تدابیر کے طور پر مندروں اور دیگر جہگوں پر اپنی آمد رفت کم کر دی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ڈاکو غیر ریاستی عناصر ہیں جو ریاست کے ساتھ جنگ میں ہیں، ان کے خلاف ایکشن ہو رہے ہیں۔ کچھ مذہبی انتہا پسند ان کی سپورٹ میں آ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی ہندو کمیونٹی کو انڈین ریاست سے بات کرنی چاہیئے۔ میں ان پر واضح کرنا چاہوں گا کہ ہم کوئی ہندوستانی نہیں ہم بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنا کوئی اور ہے۔ ہم بھی برابر کے شہری ہیں۔ جب آپ ہماری لڑکیوں کو اغوا کرکے جبری مذہب تبدیل کرتے ہیں تب تو ہم کسی ریاست سے مدد کو نہیں کہتے، ہم اس وقت بھی ریاست پاکستان کو مدد کے لیے کہتے ہیں‘۔
میرپور ماتھیلو ہندو پنچایت کے مکھی ڈاکٹر مہر چند کا کہنا ہے کہ ’ان ڈاکوں کا نہ سیما سے کوئی تعلق ہے نہ کسی مذہب یا کمیونٹی سے ان کا تعلق ہے۔ ان کا کام صرف ڈکیتیاں ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک ایسی کمیونٹی جو صاف شفاف ہے اور صرف اتنا چاہتی ہے کہ ہمیں امن سے رہنے دیا جائے اس وجہ سے وہ انھیں دھمکیاں اور پریشانیاں دیتے ہیں۔‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں