How dangerous is the new strategy of extremist organizations in Pakistan and will the possible presence of Maulana Fazlur Rehman in the 'renegotiation' with the Taliban solve the problem?
12 دسمبر 2023 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ’تحریک جہاد پاکستان‘ نامی شدت پسند تنظیم کے حملے کو ملکی تاریخ میں سکیورٹی فورسز پر ایک بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے جس میں 23 فوجی اہلکار ہلاک جبکہ 34 زخمی ہوئے۔ اس حملے کے دو روز بعد یعنی 15 دسمبر کو قریبی ضلع ٹانک میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آنے والی ’انصار الجہاد‘ نامی تنظیم نے بھی اسی طرز کے حملے کی کوشش کرتے ہوئے پولیس مرکز کو نشانہ بنایا۔
ان شدت پسند تنظیموں اور سرکاری سطح پر موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق یہ دونوں حملے مجموعی طور پر نو خودکش حملہ آورں کی مدد سے کیے گئے۔
یہ واقعات ملک میں عسکریت پسندوں کے اُن بڑھتے حملوں کا تسلسل ہیں جن کا آغاز تحریک طالبان نے گذشتہ سال نومبر میں حکومتِ پاکستان کے ساتھ ’مذاکرات میں ناکامی‘ کے بعد جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ کیا۔
سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں شدت لانے کے ساتھ یہ نئے گروہ بظاہر ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد افغانستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی میں کسی سیاسی مصلحت کا شکار بننے سے بچنے کے لیے اس جنگ کو مزید پیچیدہ بنانا ہے۔
اس تحریر میں تحریک طالبان پاکستان کا اپنی بقا کے لیے اختیار کردہ اس نئی حکمت عملی کے محرکات اور اثرات کا جائزہ شامل ہے۔
حملوں میں شدت
28 نومبر 2022 سے لے کر اب تک جنگ بندی کے خاتمے کے لگ بھگ ایک سال کے دوران تحریک طالبان کے سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کی شدت اور تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اس دورانیے میں تحریک طالبان نے 890 حملوں کا دعویٰ کیا جبکہ گذشتہ سال کے اسی دورانیے میں یہ تعداد 245 (ٹی ٹی پی کے دعوؤں کے مطابق) کے قریب تھی۔
دوبارہ جنگ کے آغاز کا سب سے خطرناک پہلو خودکش حملوں کا اضافہ تھا۔ جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے فروری 2023 کے آخر تک تحریک طالبان پاکستان اور اس کے ’الاحرار‘ نامی دھڑے نے آٹھ خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی جس میں 10 خود کش حملہ آور استعمال ہوئے۔
اس سے قبل سال 2020 اور 2021 میں تحریک طالبان کے خودکش حملوں کی تعداد فقط تین تھی۔
ان میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹی ٹی پی کے آٹھ برس بعد ہونے والے خودکش حملے بھی شامل تھے تاہم 30 جنوری 2023 کو پشاور پولیس لائن کی مسجد میں خودکش حملہ سب سے تباہ کن تھا جس میں 100 کے قریب پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں کسی ایک حملے میں پولیس فورس کو ہونے والا سب سے بڑا جانی نقصان تھا۔
ان بڑھتے حملوں کو روکنے کے لیے اُس وقت پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے انٹیلیجنس چیف لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور ایک اہم وفد کے ہمراہ 22 فروری 2023 کو کابل میں طالبان قیادت سے ملاقاتیں کیں۔
اس پیشرفت کے اگلے ہی روز ’تحریک جہاد پاکستان‘ نے اپنے قیام کا اعلان کرتے ہوئے اسی بیانیے کے تحت سکیورٹی فورسز کے خلاف جنگ کا اعلان کیا جو تحریک طالبان کا مرکزی بیانیہ رہا ہے۔
ٹی ٹی پی سے تحریک جہاد اور اب انصار الجہاد
پاکستانی وفد کے کابل سفر کے بعد تحریک طالبان کے خودکش حملوں کا سلسلہ تو رک گیا مگر جلد ہی تحریک جہاد نے سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کی ذمہ داری قبول کرنا شروع کی اور اس سلسلے کو ایک خطرناک شکل دی۔
اس تنظیم نے اپنے قیام سے اب تک 11 حملے کیے ہیں جس میں دس حملوں میں 31 خودکش بمباروں نے سکیورٹی فورسز کے قافلوں اور مراکز کو نشانہ بنایا۔
ان حملوں میں رات کی تاریکی میں فوجی مراکز پر جدید ہتھیاروں سے لیس چار سے سات خودکش حملہ آوروں کے حملے شامل ہیں، جن میں لیزر گن نامی تھرمل سکوپ پر مشتمل نائٹ ویژن بندوقوں کا بھی استعمال کیا گیا۔
پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں لیزر گن کا آغاز سابق افغان حکومت کے خاتمے کے بعد شروع ہوا ہے جو تحریک طالبان کے حملوں کا اہم جزو ہے تاہم اس ہتھیار کے سبب تحریک جہاد نے رات کی تاریکی میں حملوں سے سکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچایا۔
اس کی اہم مثال 12 دسمبر کو ڈیرہ اسماعیل خان حملہ ہے، جس میں تحریک جہاد کے حملہ آوروں نے اس ہتھیار سے سکیورٹی فورسز کے گیارہ اہلکاروں کو نشانہ بنایا جس کی فوٹیج تنظیم نے ایک مختصر ویڈیو میں جاری کی۔
اگرچہ تحریک طالبان پاکستان نے جولائی 2023 میں تحریک جہاد کو اپنی ’برادر جہادی‘ تنظیم قرار دیا جبکہ القاعدہ کی پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کی علاقائی شاخ ’القاعدہ برصغیر‘ نے بھی اپنی رسمی مطبوعات میں اس شدت پسند تنظیم کی حمایت کی تاہم یہ اب تک ایک پراسرار تنظیم رہی ہے۔
اس تنظیم کے ملا محمد قاسم نامی ترجمان میڈیا کو تحریری بیانات جاری کرتے ہیں۔ ان بیانات کے مطابق مولانا عبدل یاغستانی اس کے سربراہ ہیں تاہم اس تنظیم کی دیگر قیادت و ارکان یا محل وقوع کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں۔
پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ تحریک جہاد دراصل ٹی ٹی پی کا ایک فرضی نام ہے جس کا مقصد بڑے حملوں کی صورت میں کابل پر تحریک طالبان کے خلاف اقدام کے لیے اسلام آباد کے دباؤ کو غیر مؤثر کرنے کی کوشش ہے اور پاکستان میں شدت پسندی پر نظر رکھنے والے بعض ماہرین کا بھی یہی خیال ہے۔ تاہم اب تک ایسے شواہد سامنے نہیں آئے جس سے ان دونوں تنظیموں کا مبینہ پس پردہ تعلق ثابت ہو۔
البتہ اس پراسراریت کی وجہ سے تحریک جہاد کے حملوں کی صورت میں پاکستانی حکام کا مطالبہ کابل سے تحریک طالبان کے خلاف کارروائی کا رہا ہے۔
تحریک جہاد کے برعکس 15 دسمبر کو انصار الجہاد نے اپنے قیام کے ساتھ ہی ایک ویڈیو کے ذریعے اپنے چند ارکان اور جھنڈے سمیت تفصیلی موقف پیش کرتے ہوئے اپنی تنظیم کے سربراہ اور ترجمان کے ساتھ چھ رکنی شوریٰ کے ناموں کا بھی اعلان کیا۔
تاہم انصار الجہاد نے اپنے پیغام میں یہ واضح کیا کہ اس کے قیام کا مقصد سیاسی مصلحتوں کی بنا پر دیگر تنظیموں کو درپیش مشکلات کی وجہ سے سکیورٹی فورسز کے خلاف جنگ کی بقا و تقویت ہے۔ البتہ اس نے تحریک طالبان، تحریک جہاد یا کسی بھی پاکستانی گروہ پر تنقید نہیں کی۔
انصار الجہاد کے اپنے پیغام میں پاکستانی اور افغان عوام سمیت دنیا بھر کے جنگجوؤں سے سکیورٹی فورسز کے خلاف جنگ میں حمایت کا مطالبہ کافی تشویشناک ہے کیونکہ تحریک طالبان نے گذشتہ چند سال میں اس جنگ میں غیر ملکی جنگجوؤں کی شمولیت پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس جنگ کو فقط عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان محدود کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔
تحریک طالبان کی اس پابندی کا سب سے اہم مقصد دوحہ معاہدے کی رو سے افغان طالبان کو علاقائی و عالمی دباؤ سے بچا کر یہ ثابت کرنا ہے ٹی ٹی پی کی جنگ پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے جو کسی اور ملک کے لیے باعث تشویش نہیں ہونا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق انصار الجہاد ان قدغنوں سے بے نیاز نظر آتی ہے اور دراصل یہ بے نیازی ایک پیغام ہے کہ تحریک طالبان کو دباؤ سے ختم کرنے کی صورت میں ریاست مخالف عسکریت پسند چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہو کر اس جنگ کو پاکستان سمیت بیرونی ممالک کے لیے ایک مشکل بنا دیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں