کیا اسرائیل نے یاسر عرفات کا مقابلہ کرنے کے لیے حماس کو تشکیل دیا تھا؟
حماس کی تشکیل ’درحقیقت ایک اسرائیلی منصوبہ تھا۔۔۔‘
ماضی میں متعدد مواقع پر یہ دعویٰ بارہا کیا جاتا رہا ہے۔ اور گذشتہ سال اکتوبر میں حماس کے اسرائیل پر حملوں اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیلی فوج کے زمینی اور فضائی حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ دعویٰ دہرایا گیا ہے۔
حماس کی اصلیت اور اسرائیل کے ساتھ اس کے مبینہ تعلق سے متعلق یہ دعویٰ شاید بہت سے لوگوں کے لیے حیران کُن ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ الزام بہت پرانا ہے۔ ایک سابق فلسطینی وزیر نے حالیہ جنگ شروع ہونے سے تقریباً ایک ماہ قبل بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس معاملے کو اٹھایا جس کے بعد بہت سے غیر ملکی اخبارات اور سوشل نیٹ ورکس پر معروف شخصیات نے اسی دعوے کو مختلف الفاظ میں دہرایا ہے۔
درحقیقت یہ دعویٰ کئی دہائیوں قبل مصر کے سابق صدر حسنی مبارک نے عوامی سطح پر کیا تھا۔ اس کے علاوہ امریکی کانگریس کے ایک ریپبلکن سینیٹر نے اس بارے میں بات کی تھی جبکہ اسرائیل کی سکیورٹی ایجنسی ’شن بیٹ‘ کے حکام نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔
لیکن ناصرف حماس کے ارکان بلکہ سینیئر اسرائیلی حکام دونوں اس نوعیت کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور انھیں ’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہیں۔
مگر اس دعویٰ کی حقیقت کیا ہے، اسے کس بنیاد پر اٹھایا گیا اور حماس کی عسکری تاریخ میں کس موڑ پر یہ شبہ پیدا ہوا؟
حماس کی تشکیل
واضح رہے کہ سنہ 1987 میں قائم ہونے والی اسلامی مزاحمتی تحریک یا حماس راتوں رات نمودار نہیں ہوئی بلکہ اس کی تشکیل کی ایک طویل تاریخ تھی۔ اس عمل کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
حصہ اول: فلسطینی علاقوں میں تحریک کی جڑیں، جس کی پہلی علامات 1940 کی دہائی کے وسط میں غزہ، یروشلم کے علاقے شیخ جراح اور دیگر شہروں میں اخوان المسلمون کی پہلی فلسطینی شاخوں کے قیام کے ساتھ نمودار ہوئیں۔
دوسرا حصہ: سنہ 1967 کی جنگ میں عرب ممالک کی شکست کے بعد اس گروہ کے عرب شیخوں اور قائدین کے ساتھ اخوان المسلمین کے نوجوانوں کے درمیان اختلاف اور نوجوانوں میں منظم عسکری سرگرمیوں سے متعلق خیالات کی پہلی علامات کا ظہور ہے۔
مؤرخین کے مطابق فلسطینی علاقوں میں اخوان المسلمون کی سرگرمیوں کا ایک بڑا حصہ مذہبی، سماجی اور معلوماتی نوعیت کا تھا اور اس کی توجہ مذہبی اور سماجی اداروں اور مساجد کی تعمیر پر مرکوز تھی۔ فلسطینی علاقوں میں اپنی سرگرمیوں کے دوران اخوان المسلمین نے واضح کیا کہ اس کی توجہ عسکری نہیں بلکہ فلسطینیوں کی فکری، ثقافتی اور روحانی تربیت پر تھی۔
اسی تناظر میں حماس کے سینیئر رہنماؤں میں سے ایک خالد مشعل بتاتے ہیں 1950 کی دہائی کے آخر میں اور 1960 کی دہائی کے دوران کمیونسٹ رہنما فلسطین میں برسراقتدار آئے اور اسلام پسندوں کو مشکل اور دباؤ والے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
مشال کے مطابق اسلام پسندوں کی اس خطے میں موجودگی کا خیر مقدم نہیں کیا گیا اور ان کے لیے ملازمت کا کوئی موقع نہیں تھا۔
اس مضمون کے اگلے حصے میں ہم حماس کی تشکیل کا باعث بننے والے حالات کے دوسرے دور پر بات کریں گے، جس کا تعلق 1967 کے بعد 1987 میں اس کے باضابطہ قیام تک کے عرصے سے ہے۔
’ریڈ ٹاور‘: ’مسلح جنگ‘ کی نشانیاں,,
ایسا لگتا ہے کہ ’اسرائیل کے ساتھ جدوجہد‘ کی شکل اور طریقہ کار کو تبدیل کرنے والے عوامل میں سے ایک 1967 کی جنگ
میں عرب ممالک کی شکست تھی۔
حماس کے پہلے ترجمان اور اس گروہ کے سابق رہنماؤں میں سے ایک ابراہیم غوثہ نے ’ریڈ ٹاور‘ نامی اپنی یادداشتوں میں اخوان المسلمین کے نوجوانوں پر اس شکست کے اثرات کے بارے میں وضاحت کی ہے۔
غوثہ نے لکھا ہے کہ اردن میں اخوان المسلمون کے رابطہ کار محمد عبدالرحمٰن خلیفہ نے اس وقت ایک اسلامی کانفرنس منعقد کی تھی جس کے نتائج سے غوثہ اور اس نسل کے نوجوانوں کو مطمئن نہیں کیا گیا تھا، کیونکہ اس نے واضح طور پر ’فلسطین کے مستقبل کا حل اور جہادی اسلام کی تشکیل شروع نہ کرنے کی وجوہات کو پیش نہیں کیا تھا۔‘
کتاب میں کہا گیا ہے کہ اس نے اخوان المسلمون کے نوجوانوں (جو اسرائیل سے لڑنے کے خواہشمند تھے) کو گروپ کے اندر ایک ’اصلاحی تحریک‘ پر کام شروع کرنے اور گروپ کے لیڈروں کے علم کے بغیر خود کو مسلح کرنے پر اُکسایا۔
اس کے بعد انھوں نے خفیہ طور پر الفتح تحریک سے اتفاق کیا کہ اردن میں اخوان المسلمون کے نوجوان ارکان کو فوجی تربیت دی جائے اور انھیں مسلح کارروائیوں کے لیے تیار کیا جائے۔
یہ تربیتی مشقیں 1968 میں شروع ہوئیں اور 1970 میں اسی وقت ختم ہوئیں جب اردن میں ’بلیک ستمبر‘ کے واقعات پیش آئے تھے، کیونکہ جیسا کہ غوثہ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اخوان المسلمین کے رہنما اپنے اندر ایک ’اصلاحی تحریک‘ کے وجود سے آگاہ ہو گئے تھے۔
اِن ادوار کے دوران اخوان المسلمون نے ’روایتی رہنماؤں‘ اور ’نوجوان نسل‘ کے درمیان شدید تنازعات اور اختلافات دیکھے۔ نوجوانوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے دباؤ ڈالا، جبکہ گروپ کے لیڈروں یعنی روایتی رہنماؤں کا اصرار تھا کہ ’حکومت بنانے‘ کو اسرائیل کے ساتھ جنگ پر ترجیح دینی چاہیے۔
اس کی وجہ سے گروپ کے کچھ اراکین نے اس کو چھوڑ دیا اور ’قومی اور مسلح تحریکیں تشکیل دیں جو مسلح جدوجہد کے لیے تیار تھیں۔‘ ان پیش رفتوں نے اخوان المسلمون پر دباؤ بڑھایا جو خود متعدد دشمنوں اور دیگر فلسطینی قومی اور نظریاتی تحریکوں کے غلبے کی وجہ سے کمزور
Did Israel create Hamas to counter Yasser Arafat?
Reviewed by 00000
on
جنوری 08, 2024
Rating:

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں