لاہور میں موسلا دھار بارش سے شہری طغیانی، پانی گھروں تک پہنچ گیا
سنیچر کو صبح سویرے سے موسلا دھار بارش کے باعث صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے مختلف علاقے ایک بار پھر زیرِ آب آ گئے ہیں جس کے بعد سے ایک بار پھر شہر میں اربن فلڈنگ کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ بارش لاہور کے علاقے گلشن راوی میں 183 اور لکشمی چوک میں 169 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ اس کے علاوہ بھی لاہور کے متعدد نشیبی علاقوں میں شدید بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔
کمشنر لاہور کے مطابق ضلع انتظامیہ کی جانب سے نکاسی آب کا کام جاری ہے اور اس وقت بھی کچھ علاقوں میں بوندا باندی جاری ہے۔
اس سے قبل جولائی کے آغاز میں بھی لاہور میں شدید بارشوں کے باعث ایک 11 سالہ بچے سمیت کم سے کم 11 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے تھے۔ خیال رہے کہ اس دوران دو مختلف سپیلز میں لکشمی چوک میں 291 اور گلشنِ راوی کے علاقے میں 268 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔
تب ان بارشوں کے باعث لاہور کی رہائشی رمشا مصطفیٰ کو اپنے بچوں اور شوہر سمیت چند دن تک کے لیے اپنی والدہ کے گھر باامر مجبوری اُس وقت قیام کرنا پڑا تھا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے کرائے پر گھر لیا ہوا تھا۔ پہلے ہی اس کی حالت کوئی زیادہ اچھی نہیں تھی لیکن لاہور میں حالیہ بارشوں کے باعث نہ صرف گھر کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا بلکہ حال یہ تھا کہ گیٹ اور دروازوں سے بھی بارش کا پانی گھر میں داخل ہو گیا۔ جس سے ہمارا سامان بھی خراب ہو گیا۔‘
رمشا کا کہنا ہے کہ ’ہماری گلی میں پہلے ہی اکثر گٹر اُبل رہے ہوتے ہیں اور عام دنوں میں بھی یہاں سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے اور اس پر اگر بارش ہو جائے تو ہماری معاملات زندگی شدید متاثر ہو جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’مون سون کی حالیہ بارشوں کے باعث حالات مزید ابتر ہو گئے۔ گٹر اور بارش کا پانی گھر میں آ گیا، اتنی بدبو ہو گئی کہ گھر بیٹھنا محال ہو گیا۔ گھر اور گلی میں جمع ہونے والا یہ پانی کئی روز تک کھڑا رہا مگر نکاسی آب کے لیے کوئی حکومتی مشینری حرکت میں نہیں آئی۔‘
ان کے مطابق ’کمزور چھت اور گھر میں بدبودار پانی داخل ہونے کی وجہ سے ہم سب میری امی کے گھر چلے گئے تاکہ مزید کسی آفت سے محفوظ رہ سکیں۔‘
یہ کہانی رمشا اور اُن کے اہلخانہ تک ہی محدود نہیں بلکہ لاہور میں حالیہ دنوں میں ہونے والی اربن فلڈنگ سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ بڑے مالی نقصانات کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔
اربن فلڈنگ کیا ہوتی ہے؟
شہری سیلاب ایک قسم کا سیلاب ہے جو گنجان آباد علاقوں میں ہوتا ہے، عام طور پر شہروں یا شہری ماحول میں۔ یہ تب ہوتا ہے جب شدید بارش یا برف کا تیزی سے پگھلنا شہری علاقوں میں نکاسی آب کے نظام اور قدرتی پانی جذب کرنے کے طریقہ کار کی صلاحیت سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، بارش کا پانی سڑکوں، گلیوں اور نشیبی علاقوں پر جمع ہو جاتا ہے، جس سے عارضی طور پر پانی جمع ہو جاتا ہے اور بنیادی ڈھانچے، نقل و حمل اور رہائشیوں کے لیے اہم چیلنجز پیدا ہوتے ہیں۔
کئی عوامل شہری سیلاب میں حصہ ڈالتے ہیں، بشمول ناکافی یا زبردست نکاسی کا نظام، کنکریٹ اور اسفالٹ جیسی ناقابل عبور سطحوں کا استعمال، جنگلات کی کٹائی، اور غلط شہری منصوبہ بندی۔ یہ عوامل زمین کی پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت کو کم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے شدید بارش کے واقعات کے دوران سطح کے بہاؤ کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔
شہری سیلاب کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں، جیسے املاک کو نقصان، نقل و حمل میں خلل، اور آلودہ پانی کی وجہ سے صحت کے ممکنہ خطرات۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے، شہروں کو نکاسی آب کے بہتر نظام، پائیدار شہری منصوبہ بندی، اور بارش کے پانی کا مؤثر طریقے سے انتظام کرنے اور رہائشیوں اور بنیادی ڈھانچے پر شہری سیلاب کے اثرات کو کم کرنے کے لیے گرین انفراسٹرکچر کے استعمال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
اربن فلڈنگ کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟
اربن فلڈنگ کی واحد وجہ معمول سے زیادہ بارش نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجوہات میں انتظامی سطح پر لیے گئے فیصلے بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ جیسا کہ لاہور شہر میں حالیہ بارشوں کے دوران کئی انڈر پاس ایسے تھے جہاں کئی کئی فٹ بارشی پانی جمع ہو گیا جس کی وجہ ’شہر کے گرد موجود ڈسپوزل سٹیشنز کا مکمل طور پر کام نہ کرنا‘ تھا۔
لاہور میں سول انتظامیہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے بیشتر شہروں کا یہ مسئلہ ہے کہ ان کے ڈسپوزل سٹیشنز اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق کام نہیں کرتے ہیں یا پھر کچھ خراب ہوتے ہیں۔
’مون سون سے پہلے ندی نالوں کی مکمل صفائی کا نہ ہونا یا پھر شدید بارش ہونے کی صورت میں انھیں بروقت پیچھے سے بند نہ کرنے جیسے مسائل بھی اربن فلڈنگ کی وجہ بن جاتے ہیں۔‘
حالیہ اربن فلڈنگ کے دوران لاہور کی مشہور لاہور کنال کا بہاؤ زیادہ ہونے کے باعث اس کا پانی سڑکوں پر آ گیا۔ اس بارے میں کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا کا دعویٰ ہے کہ ’انتظامیہ نے نہر کی صفائی ایک سے زائد مرتبہ کروائی تھی۔‘
عمومی طور پر زیادہ بارش کے نتیجے میں کراچی میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شہری منصوبہ بندی (اربن پلاننگ) کے ماہر عارف حسن نے ’ڈان‘ اخبار میں لکھے گئے اپنے ایک حالیہ کالم کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہر سال کراچی میں بارش ہوتی ہے اور ہر سال یہ گمان کیا جاتا ہے کہ شہر کے مختلف نالوں کے پاس بنے گھروں کی وجہ سے نالہ بھر جاتا ہے اور نتیجہ اربن فلڈنگ کی صورت میں نکلتا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ بات اتنی سادہ نہیں اور اس کے پیچھے ایک پیچیدہ تاریخ ہے، جو اس شہر کے نکاسی آب کے نظام سے جڑی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کراچی میں بارش یا کسی اور وجہ سے آنے والا پانی شہر کے مختلف نالوں سے ہو کر لیاری اور ملیر ندی سے منسلک نالوں میں گِرتا ہے۔ واٹر اینڈ سیورج بورڈ کے مطابق کراچی میں اس وقت 64 نالے ہیں، جن میں مزید 600 ذیلی نالوں کا پانی جمع ہوتا ہے اور بلآخر یہ نالے ملیر اور لیاری ندی میں جا گرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’کراچی کی آبادی 1947 کے بعد بتدریج بڑھی ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کراچی کی آبادی چار لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل تھی مگر اب یہ کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ وقت کے ساتھ آبی گزرگاہوں اور چھوٹے، بڑے نالوں کے پاس آبادیاں بننا شروع ہوئیں۔ اور ان آبادیوں کا کچرا انہی ندی نالوں میں جانا شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میں بارش ہونے پر یہ نالے پانی کے رسائی کے کام میں مکمل مفلوج ہونا شروع ہو گئے۔
ان کے مطابق ’بارش کے پانی کے جمع ہونے میں ایک بڑا ہاتھ اس شہر کے انفراسٹرکچر اور ڈیزائن کا ہے جو ہر علاقے میں مختلف ہے، جو پانی کو نکالنے کے بجائے اسے جمع کر دیتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس کا ایک حل کراچی شہر کی باقاعدہ طور پر پلاننگ اور نکاسی آب کے نظام پر جامع اور بہتر پالیسی بنانے سے جڑا ہے۔ ’اس کی پلاننگ آپ کو آج کی حقیقت کو دیکھتے ہوئے کرنی پڑے گی۔‘
راولپنڈی کی بات کی جائے تو یہی حال راولپنڈی کے نالہ لئی کا ہے، جس میں عام دنوں میں کئی ٹن کے حساب سے کوڑا پھینکا جاتا ہے جس کے باعث بہت زیادہ بارش ہونے کے باعث پانی نشیبی اور قریبی آبادیوں تک جا پہنچتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کے ترجمان نے بتایا کہ نالہ لئی کی صفائی ریگولر بنیادوں پر کروائی جاتی ہے مگر ہر سال دیکھا جاتا ہے کہ اس صفائی کے باوجود یہ کچرا واپس سے اسی نالے میں ڈال دیا جاتا ہے کیونکہ نالہ لئی کے کناروں کو دکاندار اور رہائشی پارکنگ کی جگہ کہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ نالہ لئی کے ایک جانب کچرے کا انبار اور دوسری جانب مکانات بن چکے ہیں جن کے باعث 2022 میں شدید بارش کے نتیجے میں اس نالے کا پانی ٹنچ بھاٹہ اور بھابھڑا بازار میں جمع ہو گیا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ ’ایک تو اس نالہ میں کچرا نہ پھینکا جائے کیونکہ ہر بار کچرا ہونے کے نتیجےمیں اس نالے کی نکاسی کی لائینیں چوک ہو جاتی ہیں جس کا نتیجہ اربن فلڈنگ کی صورت میں نکلتا ہے۔‘
#shocking," "#exclusive," "#breaking," "#unbelievable," or "#urgent" #can #attract #attention.
"Heavy Rain Triggers Urban Flooding in Lahore, Water Reaches Homes"
Reviewed by 00000
on
جولائی 22, 2023
Rating:

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں