سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی باقی لیڈرشپ عوام کو کس طرح متحرک کرے گی‘
گذشتہ چند ماہ کے دوران اُن کے وکلا کو مختلف عدالتوں سے مسلسل عارضی ریلیف ملتا رہا ہے جس سے وہ کچھ سنگین کورٹ کیسز کے فیصلوں کو ختم تو نہیں کروا سکے لیکن ان میں تاخیر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا یا نہیں۔ عمران خان کی نو مئی کو گرفتاری ڈرامائی انداز میں رہائی میں بدل دی گئی تھی۔ تاہم اُس وقت سیاسی ماحول اور صورتحال مختلف تھی۔
عمران خان ان متعدد پاکستانی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو عدالتوں میں کیس بھگت چکے ہیں۔ ان میں نواز شریف، بینظیر بھٹو اور سابق فوجی آمر پرویز مشرف سمیت کئی اور بھی شامل ہیں۔
عمران خان نے بطور وزیرِ اعظم اپنے متعدد حریفوں کو بھی جیل میں ڈالا ہے۔
پاکستانی سیاست دان اکثر یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ پاکستان کا عدالتی نظام اُن کے خلاف سیاسی انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ان کی حزبِ اختلاف کے ساتھ جو ہوتا ہے درست ہوتا ہے۔
اگر عمران خان نااہل رہتے ہیں تو اس حوالے سے نمایاں سوالات موجود ہیں کہ اُن کی جماعت کے ساتھ کیا ہو گا۔
عمران خان نے ہمیں اس سے پہلے بھی بتایا ہے کہ وہ منتخب ہوتے ہیں یا نہیں پی ٹی آئی موجود رہے گی۔ تاہم یہ رائے حقیقت سے زیادہ قریب نہیں ہے۔
کوگلمین بتاتے ہیں کہ ’الیکشن آنے والے دنوں میں ہیں اس لیے اب اگلا بڑا سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی باقی لیڈرشپ عوام کو کس طرح متحرک کرے گی۔ کیا وہ اپنے حمایتیوں کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کریں گے، کیا انھیں اس میں کامیابی ہو گی۔ یہ ایک اچھا ٹیسٹ ہو گا۔‘
پی ٹی آئی ایک ایسی جماعت ہے جو عمران خان کے گرد گھومتی ہے۔ اس جماعت کا انتخابی نشان بھی بلا ہے جو عمران خان کے بطور کرکٹر انٹرنیشنل کریئر کی ایک جھلک دیتا ہے۔
اکثر سینیئر سیاسی رہنما جو عمران خان کے اردگرد اس وقت موجود تھے جب انھوں نے جماعت کا آغاز کیا تھا اب انھیں چھوڑ چکے ہیں۔ اکثر اس وقت چھپے ہوئے ہیں اور گرفتاری سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سب کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جماعت کے لیے مؤثر سیاسی مہم چلانا آسان نہیں ہو گا۔
The question is how the rest of the PTI leadership will mobilize the people.
Reviewed by 00000
on
اگست 06, 2023
Rating:

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں