کریک ڈاؤن سے عمران خان کے حامی ڈر گئے ہیں
نو مئی کے بعد سے پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان میں کچھ کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھی چلائے جا رہے ہیں۔ اس بارے میں انسانی حقوق کی نتظیموں کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات نہیں چلانے چاہییں۔
پاکستانی میڈیا میں کچھ افراد نے ہمیں بتایا ہے کہ مئی کے اواخر سے صحافی نہ تو عمران خان کا نام لے سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے تصویر دکھا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا نام ٹکرز میں بھی شائع نہیں کیا جا سکتا۔
ہمیں پی ٹی آئی کے متعدد حامیوں نے بتایا کہ انھوں نے پی ٹی آئی یا اس کی قیادت کے بارے میں سوشل میڈیا پر کچھ بھی شائع کرنا چھوڑ دیا ہے، پرانا مواد ڈیلیٹ کر دیا ہے اور اب وہ عمران خان کے یوٹیوب پر خطاب بھی نہیں دیکھتے کیونکہ کیا پتہ انھیں ایسا کرتے ہوئے بھی کوئی دیکھ رہا ہو۔
حکومت نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ پرامن مظاہرین کو گرفتار نہیں کرتی۔ تاہم سنیچر کو زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ان کی گرفتاری کے بعد جمع ہونے والے کارکنوں کو پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ انھیں باضابطہ طور پر گرفتار کیا گیا تھا یا نہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے تقریباً 100 پی ٹی آئی کارکن گرفتار کیے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پولیس کو چوکس رہنے کے احکامات دیے گئے تھے تاکہ عمران خان کی حمایت میں لوگ اکٹھے نہ ہوں۔
واشنگٹن میں تھنک ٹینک ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ آف ولسن سینٹر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں اس ظالمانہ کریک ڈاؤن سے عمران خان کے حامی ڈر گئے ہیں اور انھوں نے ہار مان لی ہے۔ عمران خان کے حامی اس مرتبہ خود کو اس طرح خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے، جس طرح انھوں نے نو مئی کو کیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایک طرح سے دیکھا جائے تو فوج نے اپنے پتے بالکل ٹھیک کھیلے ہیں۔ انھوں نے اس حکمتِ عملی کے ذریعے عمران خان کے حامیوں کی جانب سے بڑے ردِ عمل آنے سے روکا ہے۔‘
عمران خان کی لیگل ٹیم نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں