US President's visit to Saudi Arabia: Hard questions in meeting with Biden, Salman, agreement to open airspace for Israel
امریکی صدر کا دورہ سعودی عرب: بائیڈن، سلمان سے ملاقات میں سخت سوالات، اسرائیل کے لیے فضائی حدود کھولنے کا معاہدہ
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انھوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
جو بائیڈن اس وقت سعودی عرب میں دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے لیے موجود ہیں حالانکہ اس قبل انھوں نے بطور صدارتی امیدوار سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خراب صورتحال کے باعث اس سے 'تعلقات ختم' کرنے کا عزم کرتے ہوئے ایک واضح پیغام دیا تھا۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد کے ساتھ ملاقات میں انھوں نے یہ واضح کیا گیا کہ سنہ 2018 میں ہونے والا قتل ’میرے اور امریکہ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔‘
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دیگر معاملات پر اتفاق بھی ہوا ہے۔ صدر بائیڈن کے دورۂ سعودی عرب کو جمال خاشقجی کے ترکی میں سعودی قونصل خانے میں سنہ 2018 میں قتل کے بعد سعودی حکومت کی توثیق کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر قتل کی منظوری دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
سعودی ولی عہد کی جانب سے ان الزامات کی ہمیشہ سے تردید کی جاتی رہی ہے اور سعودی وکلا کی جانب سے 'ریاست کی پالیسی کی خلاف ورزی' کرنے والے سعودی خفیہ ایجنٹس کو اس کا ذمہ ٹھہرایا گیا تھا۔
صدر بائیڈن نے جمعے کو ہونے والی ملاقات کے بعد پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ ’جہاں تک بات خاشقجی کے قتل کی ہے، میں نے اس بارے میں ملاقات کے آغاز میں ہی بات کی اور یہ واضح کیا کہ میں اس بارے میں اس وقت کیا سوچتا تھا، اور اب کیا سوچتا ہوں۔‘
’میں نے بہت واضح انداز میں بتایا کہ کسی امریکی صدر کے لیے انسانی حقوق کے مسئلے پر خاموش رہنا ہمارے اقدار کے منافی ہے۔ میں ہمیشہ اپنے اقدار کے لیے کھڑا رہوں گا۔‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بائیڈن کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد نے دعویٰ کیا کہ وہ اس قتل میں 'ذاتی طور پر ملوث' نہیں تھے۔ صدر نے کہا کہ انھوں نے جواب دیا 'میرے خیال میں آپ ملوث تھے۔'
اس ملاقات سے قبل صدر بائیڈن اور ولی عہد کی مٹھیاں ٹکرا کر مصافحہ کرتے ہوئے تصویر لی گئی جس سے دونوں ممالک کے بظاہر بہتر ہوتے تعلقات کا پتا چلتا ہے۔
تاہم خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیز نے صدر بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے دونوں رہنماؤں کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ اگر میرے منگیتر زندہ ہوتے تو کہتے 'کیا یہ وہ احتساب ہے جس کا وعدہ آپ نے میرے قتل کے بعد کیا تھا؟ محمد بن سلمان کے اگلے شکار کا لہو آپ کے ہاتھوں پر ہے۔‘
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خاشقجی کے قتل پر کیا کہا؟
العربیہ نیوز ویب سائٹ کے مطابق جو بائیڈن سے ملاقات کے دوران سعودی عرب ولی عہد شہزاہ محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی شہری جمال خاشقجی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ 'افسوسناک' ہے۔
شہزاہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے خاشقجی کیس میں تحقیقات سے لے کر ٹرائل اور سزا کے نفاذ تک تمام قانونی طریقہ کار پر عمل کیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے ملک نے ایسے اصول و ضوابط بنائے ہیں جو مستقبل میں ایسی غلطیوں کو ہونے سے روکتے ہیں۔
العربیہ نیوز ویب سائٹ کے مطابق صدر بائیڈن سے ملاقات کے دوران سعودی عرب کے ولی عہد شہزاہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ایسے واقعات دنیا میں کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’سنہ 2018 میں جب خاشقجی کو قتل کیا گیا، اسی سال کئی ممالک میں صحافیوں کو قتل کیا گیا۔‘
العربیہ کے مطابق ایک اہلکار نے بتایا کہ ولی عہد نے اجلاس میں عراق میں ابو غریب جیل اور دیگر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ بائیڈن سے ملاقات کے دوران سعودی ولی عہد نے فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کا بھی حوالہ دیا اور پوچھا کہ امریکہ اور دیگر ممالک نے اس حوالے سے کیا کیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں