The war between the petroleum dealers and the government 'concerned' by the smuggled Iranian oil could be heavy on the people's pockets?
پیٹرولیم ڈیلرز اور حکومت کے درمیان اسمگل شدہ ایرانی تیل سے 'متعلق' جنگ عوام کی جیبوں پر بھاری پڑ سکتی ہے؟
پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالسمیع خان کا کہنا ہے کہ کنزیومر پرائس انڈیکس 38 فیصد تک بڑھ چکی ہے جبکہ شرح سود میں اضافے اور بجلی اور دیگر یوٹیلیٹی کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1999 میں اس وقت کی حکومت کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق پانچ فیصد منافع کا مارجن طے ہوا تھا۔
تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ 2004 میں منافع کا یہ مارجن کم ہو کر چار فیصد رہ گیا تھا جبکہ موجودہ حکومت نے منافع کے مارجن کو 6 روپے فی لیٹر کر دیا جس سے ان کا منافع تقریباً 2.4 فیصد رہ گیا۔
ان کے مطابق پیٹرولیم ڈیلرز کے لیے یہ قابل قبول صورتحال نہیں۔
صحافی تنویر ملک کہتے ہیں کہ پاکستان خام تیل امپورٹ کرتا ہے جو پہلے ریفائنری میں جاتا ہے اور پھر ملک بھر میں کمپنیوں کے ذریعے ڈیلرز تک پہنچتا ہے جو صارفین کو پیٹرول فروخت کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پیٹرولیم ڈیلرز ہڑتال کرتے ہیں تو یہ موثر ہو سکتی ہے۔
ایرانی تیل کے باعث فروخت میں کمی
پاکستان کی حالیہ مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی 24 کروڑ سے زیادہ ہے اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں یومیہ 489 بیرل تیل استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم عبدالسمیع خان کا کہنا ہے کہ سستے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ کی وجہ سے ان کی فروخت میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے سمگل شدہ ایرانی پیٹرول کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سمگل شدہ ایرانی تیل کا کاروبار دہائیوں سے جاری ہے اور پاکستان کی حکومت نے ماضی میں متعدد بار ملک میں تیل کی سمگلنگ اور فروخت پر پابندی لگانے کے وعدے اور دعوے کیے ہیں لیکن آج تک اس کاروبار کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
بلوچستان کے بیشتر پیٹرول پمپس پر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتا ہے اور اس صوبے کا پہیہ زیادہ تر سمگل شدہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کے سر پر ہی چلتا ہے۔ ایرانی پیٹرول کی یہ سمگلنگ نیلے پِک اپ ٹرکوں کے ذریعے ہوتی ہے جنھیی مقامی لوگ ’زمباد‘ کہتے ہیں۔
بلوچستان کے ایران سے متصل سرحد سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کراچی سے لیکر ملک کے دیگر علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے۔
عبدالسمیع خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیر مملکت مصدق ملک سے خود رابطہ بھی کیا اور تمام اہم اخبارات میں اپنی اپیلیں شائع کیں۔
’مصدق ملک نے کراچی آنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ نہیں آئے۔‘
’دباؤ عوام پر ہی آئے گا‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پیٹرولیم ڈیلرز کے منافع بڑھایا گیا تو اس کا بوجھ عوام پر ہی آئے گا۔
معاشی تجزیہ نگار محمد سہیل کہتے ہیں کہ تیل کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں لیکن ڈیلرز کا مارجن اس طریقے سے نہیں بڑھا۔
’اس کے علاوہ افراط زر اور شرح سود میں اضافہ ہے۔ اب جتنا بھی مارجن بڑھے گا اس کا دباؤ کنزیومر پر ہی آئے گا لیکن یہ حکومت نہیں چاہتی کہ الیکشن سے قبل عوام پر مزید دباؤ ڈالے۔‘
یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اعلان کر چکے ہیں کہ 14 اگست کے بعد موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرلے گی جس کے بعد نگران سیٹ اپ تشکیل پائے گا۔
ایسی صورت حال میں جب موجودہ حکومت یہ قدم اٹھانے سے گریزاں ہے، محمد سہیل کا کہنا ہے کہ جو آنے والی حکومت ہو گی، یعنی نگران حکومت، ’اس پر یہ دباؤ ہوگا کہ پیٹرولیم ڈیلرز کا مارجن بڑھایا جائے۔‘
کراچی کی محمد علی جناح یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد معراج کہتے ہیں کہ ’دراصل یہ ڈیلرز اور حکومت کی جنگ ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ڈیلرز چاہتے ہیں کہ ان کا منافع 5 سے 6 فیصد بڑھایا جائے جو اس وقت ڈھائی فیصد ہے۔‘
ڈاکٹر محمد معراج نے کہا کہ اگر حکومت ان کا مطالبہ مانتی ہے تو ڈیلرز کو فی لیٹر تقریباً 12 روپے ملیں گے۔
ان کے مطابق ’حکومت کے پاس اب دو راستے ہیں: یا تو اپنے حصے میں سے مارجن دیں یا پھر یہ بوجھ بھی عوام پر ڈال دیں۔ اگر حکومت اپنی جیب سے ڈیلرز کا حصہ نہیں بڑھاتی تو عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔‘
#petroleumdealers,#governmentconcerned,

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں